شیخ چلی کا خواب
شیخ چلی ایک سادہ لوح اور خواب دیکھنے والا نوجوان تھا۔ وہ ہمیشہ بڑے بڑے خواب دیکھتا اور خیالی پلاؤ پکاتا رہتا، لیکن عملی طور پر کچھ خاص نہیں کرتا تھا۔ اس کے دوست اور رشتہ دار اکثر اس کی نادانی پر ہنستے، مگر وہ اپنی خیالی دنیا میں مگن رہتا تھا۔
ایک دن شیخ چلی نے فیصلہ کیا کہ وہ دودھ بیچ کر کچھ پیسے کمائے گا۔ اس نے ایک مٹی کے گھڑے میں دودھ بھرا اور اسے سر پر رکھ کر بازار کی طرف روانہ ہو گیا۔ راستے میں چلتے ہوئے اس کے ذہن میں خیالات کا طوفان آ گیا۔
"جب میں یہ دودھ بازار میں بیچوں گا، تو مجھے اچھے پیسے ملیں گے۔ ان پیسوں سے میں ایک مرغی خریدوں گا۔ مرغی روزانہ انڈے دے گی، میں وہ انڈے بیچ کر اور مرغیاں خریدوں گا۔ پھر میرے پاس درجنوں مرغیاں ہوں گی جو اور زیادہ انڈے دیں گی۔"
یہ سوچ کر شیخ چلی بہت خوش ہوا اور آگے کی منصوبہ بندی کرنے لگا، "جب میرے پاس کافی مرغیاں ہو جائیں گی، تو میں انہیں بیچ کر ایک گائے خریدوں گا۔ گائے کا دودھ فروخت کر کے میں امیر بن جاؤں گا۔ پھر میں ایک بڑا سا خوبصورت گھر بناؤں گا، نوکر چاکر رکھوں گا، اور ہر کوئی میری عزت کرے گا۔"
اب شیخ چلی کے خواب اور بھی بلند ہونے لگے، "جب میں امیر ہو جاؤں گا، تو بادشاہ کی بیٹی مجھ سے شادی کرنا چاہے گی۔ میں بڑی شان و شوکت کے ساتھ شاہی محل میں جاؤں گا، اور سب لوگ حیرت سے میری طرف دیکھیں گے۔ بادشاہ مجھے داماد بنانے پر فخر کرے گا، اور میں پورے ملک میں مشہور ہو جاؤں گا۔"
یہ سوچ کر شیخ چلی اتنا خوش ہوا کہ اس نے اپنی خیالی خوشی میں زور سے سر ہلایا، "جب میں بادشاہ بن جاؤں گا، تو سب کو حکم دوں گا کہ میرے سامنے جھکیں!"
جیسے ہی اس نے یہ کہا، اس کا سر تیزی سے حرکت میں آیا، اور مٹی کا گھڑا زمین پر گر کر ٹوٹ گیا۔ سارے کا سارا دودھ بہہ گیا، اور اس کے ساتھ ہی اس کے سارے خواب بھی چکنا چور ہو گئے۔
وہ پریشان ہو کر زمین پر گرے ہوئے دودھ کو دیکھنے لگا، مگر اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ بازار پہنچنے سے پہلے ہی اس کا سارا کاروبار ختم ہو چکا تھا۔
قریب کھڑے کچھ لوگوں نے اس کی حالت دیکھی اور قہقہے لگانے لگے۔ ایک بوڑھے آدمی نے ہنستے ہوئے کہا، "بیٹا، صرف خواب دیکھنے سے کچھ نہیں ہوتا، محنت بھی کرنی پڑتی ہے۔ اگر تم نے دودھ بیچنے پر توجہ دی ہوتی، تو شاید آج تم واقعی کچھ کما لیتے!"
شیخ چلی کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا، مگر اب کیا ہو سکتا تھا؟ وہ افسوس کرتا ہوا گھر کی طرف واپس چل پڑا۔
نتیجہ:
یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ صرف خیالی پلاؤ پکانے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ کامیابی کے لیے خوابوں کے ساتھ ساتھ محنت اور حقیقت پسندی بھی ضروری ہے۔ اگر ہم صرف خوابوں میں ہی گم رہیں اور عملی قدم نہ اٹھائیں، تو ہمارا انجام بھی شیخ چلی کی طرح ہو سکتا ہے۔
0 Comments