میں سمندر بھی ہوں، گہرائی بھی ہوں، طاقت بھی
جو ڈوبنے کا شوق رکھے، ذرا میرے پاس آئے
میں نے سیکھا ہے جلنا، مگر راکھ نہیں ہونا
میری چمک میں ہر جلوہ پرانا ہو جاتا ہے
میں وہ چراغ ہوں جو آندھیوں میں جلتا ہے
زمانہ میری روشنی سے جلتا ہے
میں اپنی قیمت خود لگاتا ہوں
مجھے دوسروں کے تولنے کی عادت نہیں
میری مثال بارش کی بوندوں جیسی ہے
جسے چھونے والے یا تو نکھر جاتے ہیں یا بہہ جاتے ہیں
غرور نہیں مگر اتنا یقین ضرور ہے
جو میرے بغیر جیتے تھے، وہ آج بھی ہارے ہیں
میں وقت ہوں، پلٹ کر وار بھی کرتا ہوں
صبر کر، تیرا حساب بھی ہوگا
میرا انداز ہی کافی ہے پہچان کے لیے
میں وہ لمحہ ہوں جو پلٹ کر نہیں آتا
میں وہ خواب ہوں جو تعبیر میں نہیں آتا
ہر کسی کی قسمت میں میں نہیں آتا
میرا اسٹائل میری پہچان ہے
میں وہ ہوں جو صرف اپنی پہچان میں رہتا ہوں
نظر جھکا کے بات کر، میں غرور میں نہیں
بس مجھے اپنی قدر کا اندازہ ہے
میں اپنی دنیا کا بادشاہ ہوں
کسی کے آسرے پر جینے کی عادت نہیں
میں کھیل جیتنا جانتا ہوں
شرط لگانے والے بس تماشہ دیکھتے ہیں
میں دریا ہوں، راستہ خود بناتا ہوں
جو میرے خلاف ہو، وہ بھی میرے ساتھ بہہ جاتا ہے
زخم کھا کے بھی مسکراتا ہوں
کیونکہ میں ہارنا نہیں جانتا
میری خاموشی کو کمزوری نہ سمجھ
میں جب بولوں گا تو گونج دور تک جائے گی
میں چمک ہوں جو آنکھیں خیرہ کر دے
میری روشنی میں ہر سایہ چھپ جاتا ہے
خودی کا نشہ چڑھ چکا ہے
مجھے دوسروں کے سہارے کی ضرورت نہیں
میں وہ کتاب ہوں جسے ہر کوئی نہیں پڑھ سکتا
جس نے پڑھا، وہ دیوانہ ہو گیا
میں شیر ہوں، جنگل میرا ہے
جو میرے خلاف آیا، وہ شکار ہو گیا
0 Comments